Thursday, August 12, 2021

مٹھی میں بیج ۔ افسانہ۔ ہما انور

یہ کہانی آج سے دس سال پہلے لکھی تھی، اور یہ بلاگ بھی انہی کہانیوں اور نسبتاً طویل تحریروں کے لیے آج سے دس سال پہلے ہی بنایا تھا۔ اور یہ ہے دس سال میں پہلی پوسٹ۔۔۔
‘‘مٹھی میں بیج’’
ہماانور
اگرچہ ہونے کو بہت کچھ ہو سکتا تھا مگر حقیقت یہی ہے کہ ہوا کچھ بھی نہ تھا۔ پھر بھی ایک نامعلوم اداسی فائقہ کے دل میں جگہ بنائے چلی جاتی تھی۔ مسز صدیقی اپنے معمول کے خطاب میں مشغول تھیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی، ٹریفک کے مسائل، ملکی سیاست، اخلاقیات، گرتی ہوئی اقدار وغیرہ وغیرہ۔ ان کی مخاطب وہی عام تر عوام تھی، جو شاید ان سے بڑھ کر آگاہ تھی۔ وہ حالاتِ حاضرہ کیا حالاتِ غائب پر بھی سیر حاصل گفتگو کر سکتی تھیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انہیں روکنے یا ٹوکنے پر کوئی قادرنہ تھا۔ وہ سکول کی نہ صرف سینئر ترین (عمر اور تجربے دونوں میں) استاد تھیں بلکہ سینئر سیکشن کی ہیڈ بھی تھیں۔ ”وسیع تجربے“ کی حامل مسز صدیقی کے لبوں سے تلخی اور مایوسی کا ایک دھارا تھا جو بہتا چلا جاتاتھا اور یہ تلخی وہ دوسروں کے کانوں میں انڈیلنا بھی ضروری سمجھتی تھیں۔ تنقید در تنقید، شکایت در شکایت، کچھ بھی اچھا نہیں، ٹھیک نہیں اور نہ شاید ہو سکتا ہے۔ پھر ان کا اصرار یہ بھی ہوتا کہ انہیں نہ صرف سنا جائے بلکہ سر بھی دھنا جائے۔
بریک کا وقت تھا اور تقریباً سب ہی ٹیچرز لیڈیز سٹاف روم میں جمع تھیں۔ فائقہ نے اندر کے منظر سے اکتا کر کھڑکی سے باہر نظر کی۔ سٹاف روم کے آگے پھیلے وسیع برآمدے میں کرسیاں اس کی سوچ کی طرح بے ترتیب پڑی تھیں۔
گرمی کے موسم میں بریک کے اوقات میں یہ برآمدہ ٹیچرز سے آباد رہتا تھا۔ دونوں طرف سے بند برآمدے کے آگے پیپل کا تناور درخت ایستادہ تھا جس کی گھنی چھاﺅں، سخت گرمی میں بھی اس جگہ کو حدت سے محفوظ رکھتی تھی۔ سنتے آئے ہیں کہ جنّات جب چھپ چھپ کر آسمانوں کی سن گن لیتے ہیں تو ان پر فرشتے پتھر یا کنکریاں برسایا کرتے ہیں، وہی جنہیں ہم شہابِ ثاقب کہتے ہیں۔ ایسی ہی خبریں لینے کو چھوٹے جنّات اس برآمد ے کے آس پاس چھپ کر سن گن لیا کرتے تھے، جن پر مسز صدیقی اپنے لفظوں کی کنکریاں برسایا کرتی تھیں، یوں بھی کنکریاں برسانے کے معاملے میں وہ خاصی سخی تھیں۔ خیر، اب اس سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ مسز صدیقی کوئی فرشتہ ہیں۔
فائقہ نے دیکھا۔ برآمدے سے پرے، گراﺅنڈ میں بچے باسکٹ بال کھیلنے میں مگن تھے۔ ”کیسا سنہری دور، کیسی بے فکری کی عمر ہے یہ۔“ اس نے حسرت سے سوچا۔ ”نہ بجلی گیس کے بِل کا رونا، نہ غم جاناں نہ ہی غم روزگار۔“ یہی بات اگر وہ اپنے قریب بیٹھی عفت سے کہے، جو حسب عادت اپنے ہاتھوں میں تھامی ایک کتاب کی ورق گردانی میں مگن تھی تو فائقہ کو علم تھا کہ وہ کیا جواب دے گی۔ وہ یہی کہتی کہ ہاں مگر غم امتحان تو ہے، ہر عمر کے مسئلے، دکھ اور پریشانیاں مختلف ہوتے ہیں، مگر ہوتے تو ہیں۔ کوئی بھی عمر، کوئی بھی شخص ان سے محفوظ یا مامون نہیں۔
ایک ہی منظر کو دیکھنے والی ہر نظر شاید مختلف ہوتی ہے۔
کھڑکی کے اندر کا منظر بدستور تھا۔
فائقہ نے ٹھنڈی آہ بھری، کچھ مسز صدیقی کی اُگلی ہوئی تلخی موسم کے ساتھ مل کر ماحول کو سرد کیے دے رہی تھی۔ عفت نے چونک کر سراٹھایا۔ باسکٹ بال کھیلتے بچوں کے کھلے ہوئے چہروں اور مسزصدیقی کی پیشانی کے بلوں سے پھسلتی ہوئی فائقہ کی نظر عفت پر آ رکی۔
”شاید یہ بھی غلط نہیں ہیں
زندگی بھی کافی کی طرح جوں جوں سرد ہوتی گئی ،تلخ ہوتی گئی۔“
عفت نے مسز صدیقی کے ہلتے ہوئے ہونٹوں کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی،”ہر بات خصوصاً لحظہ لحظہ بدلتی زندگی محض ایک مثال سے کیسے واضح کی جا سکتی ہے فائقہ؟“ اس نے ایک نظر کھڑکی سے باہر ڈالی۔”اور بالفرض اگر کی بھی جا سکے تو، کافی ہی کیوں؟ زندگی پیپل کا گھنا، چھتنار درخت کیوں نہیں ہو سکتی؟ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس کا سایہ گھنا اور ٹھنڈا ہوتا جاتا ہے جس کی جڑیں، زمین میں اسی قدر پھیلتی ہیں، جتنا اس کی شاخیں آسمان کو چھونے کی سعی کرتی ہیں۔ پیپل، جس کے پتّے تیز آندھی کا استقبال بھی تالیاں بجا کر کرتے ہیں۔“
عفت کے چہرے کی مسکراہٹ تھی یا وہ چند جملےمگر فائقہ کو لگا بھری دوپہر میں، پیپل کی شاخوں پر مایوسی کی صورت جھولتی تاریکی نے جست بھری اور بچوں کے شور سے بھرے گراﺅنڈ کی دھوپ میں غائب ہو گئی۔
٭٭٭
فائقہ کو اس سکول میں پڑھاتے کم و بیش دو سال جب کہ نعمان سے شادی کو تین سال ہو چکے تھے۔ چند مہینے قبل ہی اسے جونیئر سے سینئر سیکشن میں بھیجا گیا تھا۔ نعمان اور فائقہ دونوں کے خاندانوں کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔ وہ نعمان کی بینک کی ملازمت کے باعث لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ لاہور آنے کے بعد کچھ عرصہ تو فائقہ نے جوں توں کرکے گزارا۔دو افراد کے گنے چنے کام صبح کے ابتدائی وقت میں پورے ہو جاتے اور پھر وہ سارا دن اکیلے گھر میں دیواروں سے باتیں کیا کرتی یا اس خاموشی کو توڑنے کے لیے اونچی آواز میں ٹی وی لگا لیتی۔ اور وہ ٹی وی بھی ایک عجب کردار تھا۔ جو خود تو اونچی آواز میں بولے چلا جاتا مگر اس کی ایک نہ سنتا تھا۔ ایک تماشا جس کے اندر تھا اور ایک تماشا جس کے باہر اور فائقہ خود نہ تماشا تھی نہ تماشائی۔
جب اس کی اکتاہٹ اور بے زاری آخری حدوں کو چھو رہی تھی، تو نعمان نے اسے ملازمت کا مشورہ دیا۔ مصروفیت جو اس کے ذہن کو آباد رکھتی۔ اسی کے مشورے سے فائقہ نے اس پرائیویٹ سکول میں اپلائی کیا اور چند روز میں اسے وہاں ملازمت مل گئی۔ اب وہ سینئر کلاسز کو انگریزی پڑھاتی تھی۔ کوئی معاشی تنگی نہ ہونے کے باوجود، جب پہلی تنخواہ، اس کے ہاتھ میں آئی تھی تو کیسی فرحت اور آزادی کا احساس اسے ہوا تھا۔ نعمان اسے مطمئن اور خوش دیکھ کر خوش تھا مگر اس کے گرد ہر دوسرا کیا پہلا شخص بھی ناخوش تھا، مایوس اور اکتایا ہوا تھا۔
پھر اکثر اسے لوگوں کے ناموں پر حیرت ہوتی۔ مسرت صدیقی کبھی مسرور دکھائی نہ دیتی تھیں۔ اخلاق میں اخلاق کی ہی شدید کمی تھی۔ سکول کے ایڈمن متین صاحب، متانت سے عاری تھے۔ ہاں، البتہ رباب کے تار اکثر و بیشتر چھڑے رہتے اور پرنسپل وقار صاحب، خاصے پُروقار تھے۔ یہیں اس کی ملاقات عفت سے ہوئی۔ حیرت اسے یہ بھی ہوتی کہ عفت کے پیشانی پر بَل کیوں نہ آتے تھے۔ اس کی آنکھیں تو بچوں پر بھی شعلے نہ برساتی تھیں۔ ہمہ وقت مصروف، مگن اور ہر کسی کی مدد کے لیے تیار عفت، ٹیچرز اور طلبا و طالبات، سب میں مقبول تھی۔ نصابی سرگرمیاں ہوتیں یا غیر نصابی، وہ اپنی مخصوص ”امدادی“ اور ”فلاحی“ سرگرمی میں مگن ہوتی۔ وہ گویا Santa's Alfتھی۔ یہ بھی تھا کہ دوسرے اس کی اس عادت کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے مگر اسے جیسے کسی بات کی پروا ہی نہ تھی۔
فائقہ نے چند ماہ کے عرصے میں اسے کسی سٹوڈنٹ کو بھی ڈانٹتے کسی سے بحث کرتے یا کسی کی شکایت کرتے نہ دیکھا تھا۔ یوں بھی وہ ٹیچرز کے درمیان گفتگو میںکم ہی حصہ لیتی اور عموماً ہر بات کا جواب ایک آدھ جملے میں ہی دیتی تھی۔ فائقہ سوچتی، ہاں اس کی ضرورت بھی کیا ہے، بات تو محض لاجواب ہی کرسکتی ہے، قائل تو عمل ہی کرتا ہے۔ فائقہ کے متجسس ہونے اور کئی بار اپنے بارے میں دریافت کرنے پر عفت نے اسے بتایا۔
”ارے بھئی، وہی عام سے گھر، عام لوگوں سی عام سی کہانی ہے میریمیرے والد بھی ایک سکول ٹیچر تھے اور بہت محنتی بھی، سکول کے اوقات کے بعد وہ ایک جنرل سٹورچلاتے تھے۔ کچھ عرصے قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے۔ عام سے سرکاری سکول اور کالج میں پڑھ کر میں نے بی ایس سی کی۔ مڈل کلاس روایات کے مطابق، میرے والدین کو بھی کوئی بیٹا نہ ہونے کا روایتی ملال تھا۔ بیٹا جو اُن کے بڑھاپے کا سہارا بنتا تھا، جو چار بہنوں کی شادیوں میں ان کا مددگار ہوتا۔ اور یہ بھی عام سی بات ہے کہ بی ایس سی کرتے ہی ایک عام سے گھرانے کے عام سے شخص سے میری شادی کر دی گئی، جو ایک پرائیویٹ فرم میں اکاﺅنٹنٹ ہے۔ میری ایک بڑی اور دو چھوٹی بہنیں بھی اب شادی شدہ ہیں اور عام سے گھروں میں عام سی زندگیاں گزار رہی ہیں۔ چھے اور دو سال عمر کی دو بیٹیاں ہیں میری، ایمن اور ندا، مگر وہ دونوں عام نہیں، بہت خاص ہیں میرے لیے۔ “ یہ کہتے ہوئے اس کے چہر ے پرمسکراہٹ روشن ہو گئی۔
”اس عام سی کہانی میںخاص اور غیر معمولی یہی نرم اور مہربان مسکراہٹ ہے۔“ فائقہ نے سوچا۔
عفت ریاضی جیسے مشکل اور خشک مضمون کی استاد تھی۔ مگر مشکل اور خشک زندگی ریاضی کا کوئی سوال تو نہ تھی، جسے اس نے کسی فارمولے کے تحت حل کر لیا ہو۔ فائقہ کے پوچھنے پر اس نے ایک بار کہا تھا،’ ’زندگی کا کلیہ یہی تو ہے، کیوں نہ مشکل چیزوں کو آسان بنانے پر توانائی خرچ کی جائے نہ کہ آسان چیزوں کو مشکل بنانے پر۔“
عفت کی بڑی بیٹی ایمن اسی اسکول میں کلاس ون میں پڑھتی تھی۔ چوں کہ جونیئر سیکشن میں چھٹی جلدی ہو جاتی تھی۔ سو وہ عفت کے پاس سٹاف روم میں آ جاتی اور اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہتی۔ عام بچوں کی طرح اس کی معصوم آنکھوں میں شرارت چمکتی تو تھی مگر اس کے لب خاموش رہتے اور برآمدے میں رکھی کرسیوں میں سے کسی پر بیٹھی ٹانگیں جھلایا کرتی یا برآمدے کی سیڑھیوں پر جابیٹھتی۔
٭٭٭
ان ہی دنوں نعمان نے فائقہ کو قسطوں پر گاڑی لے دی تاکہ اسے گھر آنے جانے میں سہولت ہو جائے اور وہ بس یا وین کے دھکے کھانے سے بچ جائے، گاڑی کی اقساط البتہ اسے اپنی تنخواہ سے ہی ادا کرنی تھیں۔ باتوں کے دوران اس نے یہ ذکر عفت سے کیا تو قریب بیٹھی سیما بول اٹھی۔
”شکر کرو، گاڑی ہی کی قسطیں ہیں، تمہیں کم از کم اپنے میاں کی قسطیں تو نہیں بھرنی پڑتیں، رباب کی طرح۔“
رباب بھی اسی سکول میں پڑھاتی تھی اور ابھی چند ماہ قبل ہی اس کی شادی، اس کی پسند سے اپنے ساتھی ٹیچر اخلاق سے ہوئی تھی۔ بقول اس کے اخلاق کو اس کے جیسی ایکٹو، زمانے کے ساتھ چلنے والی اور اپنے پیروں پر کھڑی سیلف میڈ لڑکیاں ہی پسند تھیں۔ سوال تو ”لڑکی“ کے بجائے”لڑکیوں“ پر بھی اٹھایا جا سکتا تھا۔ مگر ایسے سوال پر رباب کے تار چھڑنے کا خدشہ تھا۔ وہ شوہر کے شانہ بہ شانہ چلنے میں یقین رکھتی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ شانہ بہ شانہ چلنے کی اس کوشش میں اسے سرپٹ بھاگنا پڑ رہا تھا۔
اخلاق کی تین بہنوں کی شادی ہونا تھا اور رباب اپنے شوہر کی قسطیں بخوشی اپنی تنخواہ سے ادا کر رہی تھی۔ اس امید پر کہ نندوں کی شادی کے بعد اس کے میاں اور گھر پر صرف اور صرف اس کا حق ہوتا۔ اب یہ کون بتا سکتا تھاکہ ایسا ہوتا یا کیسا ہوتا۔
سیما کے بیٹی بیٹا اسی سکول میں پڑھتے تھے۔ اس نے شوقیہ ملازمت شروع کی تھی۔ ابتدا میں اسے یہی بات اچھی لگی کہ وہ اپنی خواہشات کو خود پورا کرنے پر قادر تھی اور ہر معاملے میں اب اپنے شوہر کی محتاج نہ تھی۔ پھر جانے کب خواہشات، اپنی ضروریات میں بدلیں اور پھر بچوں کی ضروریات ہر چیز پر حاوی ہونے لگیں۔ پھر”سٹینڈرڈ“ نامی بھوت کو قابو میں رکھنا یعنی مین ٹین رکھنا بھی تو ضروری تھا، یہی سوچ کر وہ خود کو تسلی دے لیتی تھی۔ گھر اور ملازمت، دونوں ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر موجود محاذ تھے، جہاں اسے مصروف رہنا پڑتا۔ وہ اکثر شکایت کرتی۔
”حیدر تو گھر آتے ہی صوفے پر نیم دراز ہو جاتے ہیں اور ٹی وی آن کر لیتے ہیں۔ کھانا، کپڑے ہر چیز انہیں وقت پر چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کو دیکھ لیتے ہیں۔ پھر ان کی ماں اگر گھر دیکھ لے تو مجھ پر ہی احساناور بھی بیٹے ہیں ان کے مگر ہمارے ہی سر پر سوار رہتی ہیں۔میری ساس تو ایسی ہے“بہت سے علم سے ذرا سا ادب بہتر ہمیں ہر بات چوراہے میں بیٹھ کر کرنے کی عادت ہوتی جارہی ہے۔ گھر کے اندر کی بات ہم بیچ چوراہے لے آتے ہیں اور دوسرا کوئی تبصرہ کرے تو پھر برا بھی مناجاتے ہیں۔ اس وقت سیما کی تضاد بھری گفتگو نے شکایتی ٹرین پکڑ لی تھی۔
رباب نے یہ سب سن کر نخوت سے سر جھٹکا اور اس کے لہجے میں فخر بولنے لگا،”ارے! میری ساس اور نندیں اور خاص طور پر اخلاق تو اس قدر خیال رکھتے ہیں میرا،مجال ہے کبھی کسی کام کو ہاتھ لگانے دیں مجھے۔“
مسز صدیقی چٹکیاں کاٹنے کی عادی تھیں۔ رباب کی بات پر اپنے مخصوص استہزائیہ لہجے میں بولیں،”ہاںبھئی ، انڈے دینے والی مرغی کے دانے دنکے کا خیال تو رکھنا پڑتا ہے بھئی۔“
کئی قہقہے سٹاف روم کی فضا کو مرتعش کر گئے اور فائقہ نے سوچا، ہم کس قدر آسانی سے دوسروں پر ہنس لیتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ زندگی بھی میوزیکل چیئرز کا کھیل ہے، کوئی بھی کبھی بھی، کسی دوسرے کی جگہ لے سکتا ہے۔ بات کا رخ بدلنے کو اس نے اپنا رخ عفت کی طرف کیا۔
”خود کمانے پر پیسے کی زیادہ قدر آ جاتی ہے، میرا تجربہ تو یہی ہے کہ محنت سے کمایا ہوا روپیہ ہم سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں۔“
لیکن عفت کی سوئی کسی اور نکتے پر اٹکی ہوئی تھی۔ وہ چند ثانیہ اپنے الفاظ کو تولتی رہی اور پھر جب بولی تو اس کا لہجہ کسی نامحسوس حزن میں لپٹا ہوا تھا۔
”ہاں، مگر کبھی تم نے غور کیا؟ مرد چاہے اخلاق کی طرح بھائی ہو یا حیدر کی طرح باپ، یا نعمان کی طرح شوہر وہ اسی محنت سے کمائے گئے روپے کو ہمیشہ دوسروں پر، اپنے خاندان پر خرچ کر دیتا ہے۔ مانا کہ اس دوران اس سے کسی ایک کی بیوی یا بہن یا ماں کی حق تلفی بھی ہو جاتی ہو گی۔ مگر سوچو اپنی کمائی کا کتنا حصہ وہ خود پر خرچ کرتا ہے؟ اس کا رتبہ پھر اگر کسی قدر بلند یا الگ ہے تو شاید اسی لیے....“
”اب تم خود کو مردوں کے حقوق کی علم بردار ثابت نہ کرو عفت!ہر کوئی تمہاری طرح مطمئن اور آسودہ زندگی نہیں گزار رہا۔“ سیما نے چڑ کر اس کی بات کاٹی۔
”پھر انہیں افلاطون کون کہے گا۔“ مسز صدیقی کی پیشانی کے بَل فائقہ کو لگا کہ پیدائشی نشان کی طرح تھے، شناختی علامت۔
”اور جو شخص ایسا نہ کرتا ہو....“ عفت نے خودکلامی کی اور ایک گہری سوچ اس کی آنکھوں کی تہہ میں آ بیٹھی۔
٭٭٭
مسز صدیقی ، عفت سے خار کھاتی تھیں۔ یہ بات کچھ ایسی ڈھکی چھپی بھی نہ تھی عفت کو یہاں پڑھاتے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے جب ایک صبح مسز صدیقی نئی نسل کی غیر ذمے داری کے موضوع پر خطاب فرما رہی تھیں۔ نئی نسل کہ اعتماد جس کی سرشت میں تھا۔ ہر بات کہہ دینے اور سوال پوچھنے کا درس تو انہیں پہلے روز سے دیا جا رہا تھا۔اس درس کی زد میں کبھی کبھی مسز صدیقی بھی آ جاتی تھیں۔
مگر یہاں وہ کچھ مجبور بھی تھیں۔ نئی کارپوریٹ دنیا کے جدید اصولوں کے مطابق یہ طلبا و طالبات بھی ”کلائنٹس“ ہیں۔ انہیں ناراض کرنے کا متحمل کوئی نہیں ہو سکتا۔ ان ”کلائنٹس“ کے مستقبل پر روشنی ڈالتی مسز صدیقی کی تقریر اپنے عروج پر تھی، جب عفت سٹاف روم کے اندر داخل ہوئی۔ کیبنٹ سے جرنلز نکالنے اور واپس مڑنے کے دوران وہ کہہ اٹھی،”یہ آج کی نسل ہے مسز صدیقی! انہیں مستقبل کا حال نہیں، حل بتائیے۔ سوچیے.... ”حال“ میں ”حل“کے حروف تو شامل ہیں ہی۔ اور پھر وہ استاد ہی کیا۔ جو اپنے سٹوڈنٹس کے دیئے سوالات حل نہ کر سکے۔“
اس دن کے بعد سے مسز صدیقی نے عفت کو اپنے توپ خانے کی زد پر رکھ لیا تھا۔ بیشتر اوقات وہ عفت کو ”آفت“ کہہ کر پکارتیں اور ظاہر یوں کرتیں جیسے اس کے نام کے صحیح تلفظ میں انہیں دشواری کا سامنا ہو۔ ان کے خیال میں وہ خود کو افلاطون سمجھتی تھی۔(اب جانے افلاطون، ریاضی دان تھا بھی یا نہیں)اس کی سدابہار مسکراہٹ ڈھکوسلا تھی، سب کی گڈبُک میں آنے کی کوشش میں سرگرداں عفت، ڈرامے باز تھی اور منافق۔ وہ اس کے یک سطری جوابوں سے چڑ جایا کرتیں۔ سو اب عفت ان کے سامنے حتی الامکان خاموش رہنے کی کوشش کرتی تھی۔ البتہ جب ان کی چڑاڑتے اڑتے عفت کے کانوں پر آبیٹھی تو وہ اسے کان پر بیٹھی کسی مکھی کی طرح اڑا دیتی۔
”کوئی بھی ہر کسی کی نظر میں تو اچھا نہیں بن سکتا۔ ایک دنیا آپ کی معترف ہو جائے، پھر بھی کوئی نہ کوئی تو ایسا ضرور ہوگا جو آپ کو برا سمجھے گا، کہے گا بھی۔ ارے دنیا نے تو پیغمبروں اور ولیوں کو نہ چھوڑا، پھر ہم کیا، ہماری اوقات کیا۔“
صرف عفت پر ہی کیا موقوف، مسز صدیقی 60ہزار فٹ سے زائد بلندی پر محو پرواز کسی ڈرون طیارے کی طرح، کسی پر بھی یک لخت حملہ کر دیا کرتی تھیں۔ حملے سے چند سیکنڈ پہلے تک سب کچھ معمول کے مطابق اورمتاثرہ شخص بے خبر ہی رہتا۔ منیرہ کی شادی نہ ہو سکی تھی اب تک تو کیوں آخر؟ اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما تھے؟ رباب کی ہو گئی توتھی تو کیسے؟اور اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ ساس، نندوں کا حال؟ میاں کا احوال؟ فلاں کی بھابھیاں کیسی ہیں؟ کس نے کس کا جینا حرام کر رکھا ہے؟ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہر قسم کی ہر خبر پر نظر رکھنا اور تبصرہ کرنا اپنا حق جانتے ہیں۔ وہ درمیانی عمر کی خاتون تھیں۔ بیٹا ڈاکٹر تھا اور امریکہ میں رہتا تھا۔ بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ انگلینڈ میں آباد تھی۔ مسز صدیقی،اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان میں رہائش پذیر تھیں۔ ان کے بدخواہوں کی دیرینہ آرزو تو یہ بھی تھی کہ مسز صدیقی کی بہو ان کے گھر کو رونق بخشنے کے لیے جلد سے جلد آ جائے، تاکہ وہ اپنی تیر اندازی کا ہنر اس پر آزمایا کریں۔ کچھ ان کے دل کو سکون ملے، کچھ باقی سب کو چین نصیب ہو۔
اس روز، ان کے توپ خانے نے اچانک فائقہ پر گولہ باری شروع کر دی۔”ارے بھئی فائقہ! تمہاری شادی کو کتنے سال ہو گئے؟“
”تین سال ہو چکے ہیں۔“ اس نے قدرے حیرت سے ان کا سوال سنا، مگر وہ سوال کئی دوسرے سوالوں کا آغاز تھا۔
”کتنے بچے؟“
”کوئی نہیں؟“
”کیوں؟“ فائقہ، فق ہوتے چہرے کے ساتھ قدرے اٹک اٹک کر ان کے سوالوں کے جواب دیتی رہی۔ چند سال قبل، جب فائقہ کی بھابھی پہلی مرتبہ اس کے بھائی کے پاس امریکہ گئی تھیں، تو چیکنگ کے دوران ایئرپورٹ کے عملے نے ان کا سوٹ کیس کھول کر تلاشی لی تھی۔ بعد میں انہوں نے یہ واقعہ فائقہ کو بہت مزاحیہ انداز میں سنایا تھا، لیکن اس وقت فائقہ کو ان کی شرمندگی اور کوفت کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔ اسے لگا بھرے مجمع میں مسز صدیقی نے اس کا سوٹ کیس کھول دیا ہو اور اب ایک ایک چیز کو جھٹک جھٹک کر اس کا جائزہ لے رہی ہوں۔
جب وہ اپنے حواسوں میں واپس آئی تو مسز صدیقی موجودہ زمانے کی لڑکیوں میں احساسِ ذمے داری کے فقدان پر محوِ گفتگو تھیں۔ بولتے بولتے انہوں نے کیسٹ بدلی اور اب ان کا روئے سخن مہوش کی جانب تھا۔ مہوش حال ہی میں اپائنٹ کی گئی تھی اور وہ سکول کے پرنسپل وقار صاحب کی بھانجی تھی۔ انہوں نے مہوش سے اس کے شادی شدہ ہونے کے بارے میں پوچھا تھا۔
مہوش نے اپنے سیل فون کے بٹنوں سے کھیلتے کھیلتے سر اٹھایا، ان کا سر سے پیر تک طائرانہ جائزہ لیا اور بولی،”ہوئی تھی شادی، مگر اب میں اپنے شوہر کو کک آﺅٹ کر چکی ہوں۔“ اس کا لہجہ پُرسکون تھا، انداز میں بے پروائی اور لہجے میں سسرال اور شوہر کے لیے تحقیر تھی۔ بقول اس کے اس نے شادی کسی کے ناز نخرے اٹھانے، کھانا پکانے کے لیے نہ کی تھی۔ فائقہ نے گہری سانس لی اور سوچا کوئی اسے بتائے کہ شادی کا دوسرا نام ذمہ داریاں اٹھانا ہی ہے۔ مسز صدیقی کو اگلا سوال کرنے کا موقع نہ دیتے ہوئے مہوش نے سرد مگر ہموار لہجے میں پوچھا،”مسز صدیقی! آپ کی بیٹی کی شادی کو بھی تو غالباً چھے سال ہو چکے ہیں، اس کے کتنے بچے ہیں؟“
مسز صدیقی کے چہرے کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔ ”ارے کہاں، اس کے شوہر نے ایک انڈونیشی پیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر رکھی ہے اور ان پیر صاحب نے انہیں ابھی اولاد سے منع کر رکھا ہے۔“
فائقہ اپنی افتاد بھول گئی۔ اس کے تو چودہ طبق روشن ہو چکے تھے، جب وہ بولی تو اس کی آواز معمول سے کچھ بلند ہی تھی۔”جس بات سے اللہ منع نہیں کرتا، اس سے کوئی پیر یا اللہ والا کیسے منع کرسکتاہے؟“
”چاہے وہ پیر انڈونیشی ہی کیوں نہ ہو۔“ مہوش کا قہقہہ خاصا بلند تھا۔
بعد میں یہ سارا واقعہ عفت کے گوش گزار کرتے ہوئے فائقہ نے کہا،”ہر فرعون کو کسی نہ کسی موسیٰ کا سامنا کبھی کرنا پڑ ہی جاتا ہے۔“
عفت نے مسز صدیقی کے چہرے کے پھیکے رنگ دیکھے اور بولی، ”ہاں، مگر ہر فرعون کو نہیں، موسیٰ کوئی ایک ہی ہوتا ہے، ایک بار ہی آتا ہے اور اس سے قبل کئی ہزار سال تک ہر فرعون کے گھرمیں فرعون ہی پلتا ہے اور وہ ہی اس کی جگہ لیتا ہے۔“
فائقہ کو محسوس ہوا، مہوش کی صورت ایک ننھا منا فرعون جنم لے رہا تھا۔
٭٭٭
ہوا، برف کی طرح جامد تھی اور دھند لہروں کی صورت بہتی تھی۔ وہ جنوری کی ایک خاموش صبح تھی۔ سکول شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا اور سٹاف اور طلبا و طالبات کی آمد جاری تھی۔ فائقہ چلتے چلتے چند لمحے کے لیے رُک گئی۔ جس منظر کو دیکھنے والا کوئی نہ ہو، ایسا منظر دیکھنے والا ہوتا ہے۔ اس کے گرد ہر طرح کے چہرے آگے بڑھتے جاتے تھے۔ اداس، مسرور، مگن، لاپروا، اکتائے ہوئے، زندگی اپنے تسلسل کے ساتھ رواں دواں تھی۔ سکول میں مختلف کلاسز کے ماہانہ ٹیسٹ ہو رہے تھے اورہر کوئی مصروف تھا، عجلت میں تھایا کم سے کم ایسا دکھائی دینے کی کوشش میںمصروف تھا۔ البتہ ہمیشہ مصروف رہنے والے دو ہاتھ، آج عفت کی گود میں ساکت پڑے تھے۔ وہ گراﺅنڈ کے ایک کونے میں رکھے گئے سنگی بینچ پر بیٹھی تھی۔ بینچ کی ٹھنڈک کو دور سے ہی محسوس کرکے فائقہ کو جھرجھری سی آ گئی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی عفت کے پاس چلی آئی۔
”دھوپ کے انتظار میں بیٹھی ہو تو وہ شاید آج سارا دن دکھائی نہ دے گی۔“
عفت نے جھکا ہوا سر اٹھایا۔ اس کی ناک سردی سے سرخ ہو رہی تھی، جبکہ بائیں آنکھ کا نچلا حصہ نیلا دکھائی دے رہا تھا۔
”یہ کیا ہوا ہے؟“ فائقہ نے بے ساختہ تشویش سے پوچھا۔
”ایک چھوٹا سا حادثہ ہو گیا تھا۔“ عفت کی آواز ہوا میں منجمد ہو رہی تھی۔ اس نے دھند میں لپٹی سکول کی عمارت پر نظر جما دی۔ فائقہ چند لمحے عفت کے چہرے کو دیکھتی رہی اور پھر بولی:
”مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ جیسے تمہاری آنکھوں کے پیچھے کوئی دریا بہہ رہا ہے؟“
عفت کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی۔ ”دریا تک پہنچنے کے لیے بھی تو دریا سے گزرنا پڑتا ہے، تم بھی گزر آئیں؟“
”ہاں! دریا کا پاٹ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ مگر دریا تو سب کو ہی پار کرنا پڑتے ہیں۔ مگر تمہارے ساتھ ہوا کیاہے؟“
اس کے سوال کو نظرانداز کرتے ہوئے عفت نے کہا،”میں سوچ رہی ہوں، دو دن کی چھٹی لے لوں، کچھ بہت ضروری کام نمٹانے ہیں اور امی کی طبیعت بھی کل سے ٹھیک نہیں، انہیں میرے ہونے سے ڈھارس رہے گی۔“ یہ ایک اور انہونی تھی۔ عفت اور چھٹی؟ اور وہ انہونی کس قدر بڑی ہے، جو اس کی آنکھوں کے پیچھے بہتی ہے، فائقہ نے سوچا۔ مگر اس کی زبان پر آنے والا سوال دوسرا تھا۔
”اور ایمن! اس کے بھی تو ایگزامز ہو رہے ہیں نا!“
”ہاں، مگر کام ضروری ہیں۔ میں اسے سکول چھوڑ بھی جاﺅں تو واپسی کا مسئلہ ہوگا۔ اس وقت میں جانے کہاں ہوں گی، کہاں نہیں، اس کی فکر الگ رہے گی۔“
”ارے، تو میں چھوڑ دوں گی اسے گھر۔ “ فائقہ نے کہا۔
”تمہیں تکلیف ہوگی۔“ عفت کو تامل تھا۔
”پہلی بات تو یہ کہ تکلیف ہو گی نہیں اور اگر ہوئی بھی تو دو ہی دنوں کی بات ہے صرف۔“
”میں آج اپنی امی کی طرف ہوںفائقہ! تمہیں خاصا لمبا چکر پڑے گا اور وقت بھی ضائع...“
فائقہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”بحث مت کرو، میں آج واپسی پر تم دونوں کو گھر چھوڑ دوں گی، رستہ بھی دیکھ لوں گی۔“
عفت بینچ سے اٹھ کھڑی ہوئی، لیڈیز سٹاف روم تک پہنچتے پہنچتے اس کی آنکھوں کے پیچھے بہتا دریا دھند کی کسی لہر میں گم ہو چکا تھا۔برآمدے کی سیڑھیاں چڑھتے فائقہ نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ دھوپ جس کے سارا دن دکھائی نہ دینے کی پیش گوئی اس نے ابھی ابھی کی تھی۔ وہ نہ صرف عفت کے چہرے بلکہ گراﺅنڈ میں بھی نکل آئی تھی۔ اور جب سورج کی کرنیں، دھندکی دبیز تہہ کو چیر کر زمین پر اتریں، تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ گھاس پر، پانی کے ننھے ننھے قطرے چمکتے تھے اور ایک معمول کے دن کا آغاز ہو گیا تھا۔
اتنے مصروف دنوں میں عفت کو وقار صاحب نے چھٹی بھی محض اس لیے دے دی کہ وہ انتہائی ضرورت کے تحت شاذونادر ہی چھٹی لیا کرتی تھی۔
مسز صدیقی حسب عادت، عفت کے چہرے کے اس نیلے نشان کے متعلق متجسس تو ضرور ہوئیں، مگر کھوج کچھ نہ پائیں۔ اس کے تاثرات معمول کے مطابق تھے۔ خوش گوار اور روشن۔ انہونی دھوپ میں تحلیل ہو چکی تھی۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اسے آج کی تقریر کا موضوع نہ بنا پائیں۔ کچھ یوں بھی آج کل ان کی توجہ کا مرکز مہوش کی ذات تھی اور وہ اپنے تخت کے لرزتے پائے جمانے میںمصروف تھیں۔
٭٭٭
فائقہ کے ساتھ بیٹھی ایمن اسی طرح خاموش تھی، جیسا کہ وہ عام طور پر ہوا کرتی تھی۔ اس کی نظریں سڑک پر بھاگتی ٹریفک پر جمی تھیں۔ فائقہ کو محسوس ہوا کہ جیسے اس ننھی بچی کے چہرے پر کسی نے بوڑھی آنکھیں لگا دی ہوں۔ میں شاید وہمی ہوتی جا رہی ہوں، اس خیال کو ذہن سے جھٹک کر اس نے راستے پر نظریں جمائیں۔ مین روڈ پر جاتے ہوئے جب بائیں طرف گرجا کی عمارت دکھائی دیتی تو اس عمارت کے عین مقابل سڑک پر اسے دائیں جانب مڑنا تھا۔ گلی کے نکڑ پر ایک سبزی کی دکان تھی۔ سبزیوں کے ٹوکرے آدھی سڑک تک پھیلے ہوئے تھے۔ وہ گلی اس قدر چھوٹی بھی نہ تھی اور ابھی فائقہ کی گاڑی اور انااس قدربڑے نہ ہوئے تھے کہ وہ اس میں داخل نہ ہو پاتی۔ گاڑی پارک کرکے اس نے سبز گیٹ والے اس چھوٹے سے گھرکی گھنٹی بجائی۔
دروازہ کھولنے والی خاتون عفت کی والدہ تھیں۔ وہ عمرمیں تو مسز صدیقی کے برابر ہی رہی ہوں گی ، مگر ان کی پیشانی شکن آلود نہ تھی۔ ایک نرم اور مہربان مسکراہٹ نے فائقہ کا استقبال کیا۔ یہ مسکراہٹ تیسری نسل کو منتقل کیوں نہ ہو پائی تھی، فائقہ نے ایمن کے چہرے کو دیکھ کر سوچا۔ وہ پرانی طرز کا بنا ہوا چھوٹا سا گھر تھا۔ جس میں وہ ہی قرینہ اور ترتیب دکھائی دیتی تھی، جو عفت کی ذات میں تھی۔
”تم عفت کی دوست ہو ناں؟ تمہارا ذکر اس نے کئی بار کیا ہے مجھ سے۔“ عفت کی والدہ کے لہجے میں عجلت تھی۔ ان کی آنکھوں سے ہراس جھانکنے لگا۔”عفت آتی ہی ہو گی بس۔ کچھ اس کو سمجھاﺅ بیٹی۔ گھر یوں ہی نہیں بن جاتے۔“
فائقہ کو عفت کی نگاہوں سے جھانکتی انہونی یاد آئی۔ ”ہوا کیا؟“
”اس کے شوہر نے اس کو نکال دیا گھر سے، مگر بیٹا کچھ تو گنجائش ہو گی نا؟ کوئی تو راہ ہو گی۔ ندا کو سکول جاتے ہوئے میرے پاس چھوڑ جاتی ہے، کل بھی چھوڑ گئی۔ اب میں کیا جانوں کہ ہوا کیا تھا؟ واپس آئی توبتایا کہ اس کے شوہر شفیق نے اسے طلاق دے دی۔ میں ے آج اس کی ساس سے بات کی تو وہ بولی کہ شفیق تو کل سے گھر سے غائب ہے، وہ واپس آئے تو وہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی کروائے گی۔ اسے پروا ہی نہیں۔ کہتی ہے واپسی کا راستہ نہیں۔ آج وکیل کے پاس گئی تھی مشورہ کرنے، طلاق موثر کروانے کے لیے، ارے بیٹی، دنیا کہے گی کہ بیوہ ماں نے اپنے فائدے اور خدمت کے لیے بیٹی کو گھر بٹھا لیا۔ بیٹیوں کی ماں ہے یہ۔ کچھ ان کے مستقبل کا بھی سوچے۔ “ ان کی زبان سے لفظ اور وسوسے، سوکھے پتوں کی طرح جھڑتے تھے۔
فائقہ مکدر ہو گئی، یہ عفت اپنے حال میںمگن اور بے نیاز ہے یا حد سے زیادہ لاپروا؟ بوڑھی آنکھوں والی بچی کی مطمئن ماں؟ اسی اثنا میں عفت گھر آ چکی تھی۔
”واپسی کی راہ تو اس نے کوئی چھوڑی ہی نہیں امی! چھوڑ دیتا بھی تو میں نہ پلٹتی۔ افسوس مجھے یہ ہے کہ اب کی بار بھی فیصلہ اس نے کیا۔ اور دنیا کی بات مت کیجیے۔ دنیا کے لیے یہ سارا قصہ آج کی تازہ خبر ہے، جو کل ردی کے بھاﺅ بکے گی۔“
”اور بچے؟ تیری ساس کہتی تھی، وہ بیٹیاں لے لیں گے تجھ سے۔“ اس کی امی کے لہجے میں سراسیمگی تھی۔
”شوق سے اگر وہ انہیں کما کر کھلانے اور ان کی ذمے داری اٹھانے کے قابل ہوتا تو اور مسئلہ ہی کیا تھا امی! وہ محنت نہیں کر سکتا اور اولاد پالنے کے لیے مشقت کرنی ہوتی ہے، سو بے فکر رہیں۔“
”اس قدر بڑی بات پر بھی تم مطمئن کیسے ہو؟“ فائقہ کے ہونٹوں پر سوال آ ہی گیا۔
عفت کے لہجے میں اس نے پہلی بار تلخی محسوس کی۔”یہ بے نیازی نہیں، حقیقت پسندی ہے فائقہ! مڈل کلاس کی مڈل پاس ماﺅں کی اولاد کو گھٹی میں یہ سخت جانی اور حقیقت پسندی ہی تو ملتی ہے۔“
”لیکن ہوا کیا تھا آخر؟“
اس سوال کا جواب عفت نے ندا کو بہلاتے، سب کے لیے کھانا لگاتے اور ایمن کو کھانا کھلاتے ہوئے دیا۔
شفیق سے اس کی شادی جس رشتہ کروانے والی کے توسط سے ہوئی تھی، اس کے مطابق وہ بی کام کر چکا تھا اور ایک پرائیویٹ فرم میں اکاﺅنٹنٹ تھا۔ نسبتاً بہتر علاقے میں پانچ مرلے کے گھر اور گھر میںکھڑی دو، دو موٹر سائیکلوں کا ذکر بھی اس نے کیا تھا۔ عفت کے والدین کو یہ رشتہ اس کے لیے بہترین لگا، سو اس کی شادی طے کر دی گئی۔شادی کے بعد کھلا کہ گھر میں کھڑی وہ موٹر سائیکلیں شفیق کے بھائیوں کی تھیں۔ تین شادی شدہ اور بال بچے دار بھائی بھی اسی چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ ایک پرائیویٹ فرم میں ملازم تو وہ ضرور تھا۔ مگر شادی کے سلسلے میں وہ اسے چار روز سے زیادہ چھٹی دینے کو تیار نہ تھے۔ اسی تنازعے پر شفیق شادی سے پہلے ہی نوکری چھوڑ چکا تھا۔
”بعد میں تم نے اپنے والدین کو بتایا نہیں یہ سب؟“ فائقہ نے پوچھا۔
”کیا کرتی بتا کر؟ شادی تو ہو ہی چکی تھی۔ میکے آنے پر ابو، شفیق کے بارے میں پوچھتے تو میں یہ ہی بتاتی رہی کہ اس نے آج چھٹی کی تھی دفتر سے یا جلدی آ گیاتھا۔ “
عفت کے لیے یہ سب کچھ بالکل نیا تھا۔ اس نے اپنے باپ کو دن رات محنت کرتے دیکھا تھا۔ مردوں سے متعلق اس کی ساری دنیا اور معلومات اپنے باپ تک محدود تھیں۔ اس کا شوہر نہ صرف کام چور تھا بلکہ کم ظرف بھی تھا۔ اسے کہیں ٹک کر کام کرنے ،محنت کرکے کمانے اور ذمے داری کا بوجھ ڈھونے کی عادت نہ تھی۔اس عرصے میں اس نے کئی بار نوکری کی اور ہر مرتبہ چھوٹے چھوٹے جھگڑوں پر چھوڑ دی۔
ایک سال کا عرصہ تو عفت نے جوں توں کرکے گزار لیا اور پھر ایمن کی پیدائش کے بعد ایک سکول میں نوکری کر لی اور زندگی کی گاڑی میں جُت گئی۔ عام کام چور مردوں کی طرح شفیق نے بھی اسے زندگی کی اس گاڑی میں جوتنے کے بعد ہاتھ میں چابک اٹھالیا۔ کچھ مدد تو عفت کے والد بھی اس کی کرتے رہتے تھے۔ خراج کی وہی رقم، جو بیٹی یا بہن کی شادی کے بعد کئی باپ، بھائیوں کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ سو وہ بھی ادا کرتے رہے۔
تقریباً ایک سال پہلے عفت کے والد کا انتقال ہو گیا تو خراج کی یہ رقم شفیق کو ملنی بند ہو گئی۔ ایمن بھی اب سکول جانے لگی تھی۔ فیس تو عفت کو اپنے ٹیچر ہونے کے باعث ادا نہیں کرنی پڑتی تھی، مگر دوسرے خرچ تو تھے۔ پھر بڑھتی ہوئی مہنگائی، سو اب شفیق نے اس پر ہاتھ اٹھانا بھی شروع کر دیا تھا۔
ایک ہی گھر میں رہنے کے باعث، ایمن اور ندا اپنے تایا اور چچا کو اپنے کزنز کے لاڈ اٹھاتے، فرمائشیں پوری کرتے دیکھتی تھیں۔ سارے باپ ان کے باپ جیسے نہیں تھے۔ ساری مائیں ان کی ماں جیسی نہ تھیں، جو سارا دن زندگی کی چکّی میں پستی تھی اور شام ڈھلے ان کے باپ سے مار کھاتی اورکسی کونے میں بیٹھی آنسو بہاتی۔ ان کی چچی اور تائی بھی تو مائیں تھیں، بیویاں تھیں، جو ناز بھی اٹھواتی تھیں، نخرے بھی دکھاتی تھیں۔ اسی گھر میں ان کی دادی بھی تھی، جووقتاً فوقتاً عفت کو شوہر کے حقوق یاد دلاتی اور تخت پر بیٹھی تماشا دیکھا کرتی۔ان کے معصوم ذہن، سوچتے تو ہوں گے کہ کچھ حقوق ان کے بھی تھے یا نہیں؟ اور جو فرائض ادا کرتے ہیں، کیا ان کے حقوق معاف ہو جاتے ہیں؟
عفت بولی۔ ”اور پرسوں بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے ہاتھ اٹھانے پر میں نے سوچا، گھر میں چلاتی ہوں، نہ صرف بچوں بلکہ خود اس کی کفیل بھی میں ہوں۔ کام گھر کے اندر کے ہوں یا باہر کے، چھوٹے ہوں یا بڑے، وہ میرا مددگار نہ تھا، میری زندگی میں وہ کہیں نہ تھا، تو پھر میں اس کے گھر میں کیوں تھی؟ صرف اس لیے کہ وہ میری بیٹیوں کا باپ تھا؟ مگر شفیق نے تو کبھی ان پر بھی شفقت نہ کی تھی۔ ایمن کے سکول میں داخلے پر اس نے کہا تھا کہ کیا کر لے گی یہ پڑھ کر؟ زیادہ سے زیادہ تم جیسی بن جائے گی۔
اور میں کیسی تھی؟کیسی ماں؟ جس کا شوہر اس پر ہاتھ اٹھاتا تھا اور ایمن کمرے کے کونے میں بیٹھی، آنکھوں میں خوف اور آنسو لیے مجھے پٹتے دیکھتی تھی۔ مجھ جیسی ماں نے اسے خوف زدہ بچپن دیا تھا یا باپ نے؟باپ کا سایہ اس کے لیے احساسِ تحفظ کی ضمانت کیوں نہ تھا؟ اور پھر اس سب کے باوجود صرف شفیق کا ہاتھ اٹھے، کیوں؟ میرا کیوں نہیں؟ سو اس روز میرا ہاتھ بھی اٹھ گیا۔ اس کے لیے یہ اس قدر غیرمتوقع بات تھی کہ اس نے اشتعال کے عالم میں مجھے طلاق دے دی۔ اور تب سے وہ گھر سے بھی غائب ہے۔ یقینا کسی پچھتاوے کے تحت کہ بقول مسز صدیقی اس نے انڈا دینے والی مرغی کو ذبح کر لیا ہے۔“
عفت کی گود میں لیٹی ندا سو چکی تھی اور باہر صحن میں دھوپ ڈھل رہی تھی۔
”اور تمہاری بیٹیاں؟ تم جس قدر بھی حق بجانب سہی، جو ہونا تھا ہو چکا۔ اور اب کل کو انہیں سننا ہوگا کہ وہ ایک طلاق یافتہ ماں کی بیٹیاں ہیں۔“ فائقہ نے تاسف سے کہا۔ وہی مستقبل کا خدشہ اور مستقبل کیسا تھا؟ یہ کون جانتا تھا؟
”میں نے ایسا چاہا تو نہیں تھا، مگر جو ہوا ٹھیک ہوا۔ اس سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا، میں نے تو وہ بھی نہیں چاہا تھا کہ ہو۔ کچھ اس نے بھی تو سوچا ہوگا، جس نے زندگی دی ہے، وہ جو کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے، زندگی نے آج جو سوال دیا ہے، اسے حل کر لوں۔ کل کا سوال کل آنے پر دیکھی جائے گی۔“
”تمہیں یاد ہے وہ کہانی؟ جس میں بادشاہ کی پوچھی جانے والی ہر بات پر اس کا وزیر باتدبیر یہی جواب دیتا تھا۔ جو ہوتا ہے، اچھے کے لیے ہوتا ہے، اسی میں بہتری ہو گی۔“
”ہاں۔“ عفت مسکرائی۔ ”اور اسی کی پاداش میں، اس سر پھرے بادشاہ نے اس وزیر کو ایک روز کنوئیں میں الٹا لٹکانے کا حکم جاری کر دیا تھا۔“
”جیسے تم سسرال کے کنویں میں ڈال دی گئیں۔“ فائقہ نے کہا۔
”ہاں، مگر کہانی کے آخر میں اس وزیر کی بات درست بھی تو ثابت ہو گئی تھی اور اسے کنویں سے اسی بادشاہ نے نکلوا لیا تھا۔ کنویں میں تو سب کو ڈالا جاتاہے، فائقہ! البتہ سب کے کنویں الگ الگ ہیں۔ سب کے مسائل مختلف ہیں، مگر ہیں تو۔ یہ جنت نہیں دنیا ہے، جو امتحان کی جگہ ہے، آزمائش کا گھر ہے، یہاں ہر کسی کو اس کی برداشت، ہمت اور ظرف کے مطابق سوال حل کرنے کو دیئے جاتے ہیں۔ میرے اور تمہارے سوالوں میں، امتحان میں فرق ہوگا، مگر اس امتحان سے گزرنا تو ہم سب کو ہے، اس امتحان سے کسی کو مفر نہیں۔“
”تمہارے دل میں شکایت تو آتی ہو گی، کہ تم ہی کیوں؟“
”خدا اور لوگوں سے شکایت، سوال حل کرنے اور امتحان میں کامیاب رہنے میں مدد تو نہیں دے سکتی۔“
”ان سب حالات کے باوجود تمہارے اندر تلخی ہے، نہ پیشانی پر بَل۔حساس لوگ تلخ ہو ہی جاتے ہیں، ان حالا ت میں۔ “ فائقہ نے کہا۔
”ہاں مگر میں تلخ ہونا نہیں چاہتی۔ ہماری کیفیات اور جذبات خود ہمارے اندر ہوتے ہیں۔ اداسی، تکلیف، خوشی اور اطمینان، سب کا مرکز ہماری اپنی ذات ہے فائقہ! کوئی دوسرا نہیں۔ حالات ہمارے کنٹرول میں نہیں رہتے، مگر خود ہماری ذات بہت حد تک ہمارے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ کوئی دوسرا ہمیں خوشی دے، خوش رکھے، کیوں؟ اطمینان اور خوشی کے حصول کا ذریعہ دوسرے نہیں، ہم خود ہیں، چاہو تو ہنس کر گزار دو، چاہو تو تلخی سے، زندگی تو اپنی سوچ، خود اپنی مٹھی میں ہے۔“
”مگر تم کبھی تو دوسروں سے اپنا موازنہ کرتی ہو گی عفت؟ تمہیں کیا ملا؟ تم نے کیا پایا؟“ فائقہ نے اپنا سوال دہرایا۔
”مجھے کیا ملا؟“ عفت کے چہرے پر مسکراہٹ چمکنے لگی۔ ”مجھے کچھ دوست ملے، جو میری آنکھوں کے پیچھے بہتے دریا تک پہنچنے کے باوجود اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ انسان کی کمائی انسان ہوتے ہیں، پیسہ نہیں، اپنے لیے دعا کرنے والے ہاتھ کماتا ہے انسان اس زندگی میں، جو دونوں زندگیوں کو آسان کر دیتے ہیں۔میری بیٹیاں میرا سرمایہ ہیں اور میرے اندر کی نرمی، میری آنکھوں کی چمک اور میرے چہرے کی مسکراہٹ میری کمائی ہے۔ ایسی کمائی جو کوئی مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ مجھے محسوس کرنے والا دل دیا گیا، سوچنے والا ذہن عطا کیا گیا، دیکھنے والی آنکھ دی گئی، اور کیا چاہیے۔“
فائقہ جب عفت کے گھر سے نکلی تو شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی اور زندگی اپنے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری تھی۔ وہ آج تک یہ ہی سنتی آئی تھی کہ عورت خصوصاً مشرق کی عورت،مٹھی میں ریت بھر کر زندگی گزارتی ہے۔
”ہر بات مثال سے واضح نہیں کی جا سکتی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔ ”ریت ہی کیوں؟بیج کیوں نہیں؟ اور عورت ہی کیوں؟ مرد بھی کیوں نہیں؟ زندگی مٹھی میں بیج بھر کر بھی تو گزاری جاسکتی ہے۔ مستقبل کے بیج، دعاﺅں کے بیج، خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے کے بیج، حکمت، دیانت اور سچائی کے بیج، جو دوبارہ کاشت کیے جا سکتے ہیں۔“